Private Schools Colleges Maojuda Dour ka behtreen business
پرائیویٹ سکول و کالجز، موجوہ دور کا بہترین بزنس
حکومت کی تعلیم کے متعلق عدم توجہ کی وجہ سے غریب عوام تعلیم کی نعمت سے محروم ہے۔ گِنے چُنے سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جن کی تعداد پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نسبت نہ ہونے کے مترادف ہے۔ جبکہ ان سرکاری اداروں میں بھی محدود نشستیں ہوتی ہیں۔ ایک غریب کا بچہ اپنے تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اسے اپنے تعلیمی و گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے اگر اس کے نمبر تھوڑے کم آ جائیں تو سرکاری محدود نشستوں کی وجہ سے اس کا داخلہ نہیں ہو پاتا اور اس طرح صرف چند طلباء و طالبات کو ہی داخلہ ملتا ہے اور انہی کو ہی لیپ ٹاپ ،سولر لائٹس وغیرہ جیسی سہولیات دی جاتیں ہیں جب کہ غریب عوام کے لیے کوئی موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے غریبوں کے بچے لیپ ٹاب ،سولر لائٹس و دیگر سہولیات تو دور تعلیم کی نعمت سے ہی محروم رہ جاتے ہیں۔علاوہ ازیں سرکاری تعلیمی اداروں میں سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے کوٹے جس کی وجہ سے نشستوں میں اور کمی آ جاتی ہے اور غریبوں کے بچوں کے داخلے کا سکوپ اوربھی کم ہو جاتا ہے ۔یہ صورتحال اس بات کی چغلی کھا تی ہے کہ حکومت کو ملکی شرح خواندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی ، ان چند تعلیمی اداروں میں بھی قلیل نشستیں مگر طلباء و طالبات کی تعدادذیادہ ہے جس وجہ سے ہزاروں طلباء و طالبات کامیٹرک کے بعد کالج میں اور انٹر کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ہو پاتاہے۔ اس ساری صورتحال نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بزنس کو مزید کامیاب بنایا ہے۔تعلیم جاری رکھنے کے لیے مجبوراطلباء و طالبات کو پرائیویٹ کالجز کا رُخ کرنا پڑتا ہے جہاں کالجز مالکان کا شاہی نظام ہوتا ہے جس میں کالج مالکان کی مرضی کے مطابق قانون و ضوابط بنائے جاتے ہیں ۔اس ظلم کی شروعات تب ہوتی ہے جب پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی مرضی کی فیس مانگتے ہیں ۔تعلیم کے حصول کے لیے طلباء و طالبات کو مجبوراً ان کی منہ مانگی فیس ادا کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن منہ مانگی وصول کر لینے کے باوجود بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا پیٹ نہیں بھرتا تو تقریبات وغیرہ کے بہانے طلباء و طالبات سے بھاری قیمتیں وصول کی جاتی ہیں جو کہ طلباء و طالبات کو مجبوراً ادا کرنی پڑتی ہیں علاوہ ازیں کالجز کے سمسٹر سسٹم میں ہر سمسٹر کی اپنی مرضی سے فیس لاگو کر دی جاتی ہے اگروہ اضافی عائد کی گئی فیس سٹوڈنٹس نہ ادا کریں توان کی ڈگری ضبط کر لی جاتی ہے یا ان کا سمسٹر فیل کر کے انہیں ذلیل کیا جاتا ہے ۔ کچھ پرائیویٹ کالجز کی پیسے کی بھوک نے اتنی شدت اختیار کر لی کے گرمیوں میں پنکھا ، ایئر کنڈیشنز اور واٹر کولر کے لیے بھی طلباء و طالبات سے بھاری قیمتیں وصول کرتے ہیں جو کہ گرمی کی شدت سے بے حال طلباء و طالبات مجبوراً ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی پرائیویٹ تعلیمی ادارے جب سڑکوں و دیواروں پہ بڑے بڑے اشتہارات لگواتے ہیں تو اس پہ بڑے حروفوں میں لکھتے ہیں “ائیر کنڈیشن کلاسز” ۔ طلباء و طالبات سے فیسیں کلاس کے شروع ہوتے ہی لے لی جاتی ہیں تاکہ اس صورتحال سے مجبور ہو کر اگر کوئی طالب علم جانا بھی چاہے تو نہ جا سکے۔اگر ایک نظر ہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی عمارتوں پر ڈالیں تو تقریباً کرائے پہ لی گئی چند کمروں پر مشتمل عمارتیں ہوتیں ہیں ۔ جس میں صرف دکھاوے کے لیے لائبریری اور مختلف پریکٹیکل لیبز کے لیے مخصوص شدہ کمرے ظاہر کیے جاتے ہیں بعد ازاں سٹوڈنٹس کی تعداد ذیادہ اور کلاس رومز کی کمی کی وجہ سے انہی مخصوص شدہ کمروں میں ہی کلاس ہوتی ہے جبکہ لائبریری و لیبز کا صرف نام ہی رہ جاتا ہے ان میں کوئی عملی کام کی بجائے لیکچرز ہوتے ہیں۔اشتہارات پر بڑے حروفوں میں لکھوا تو دیا جاتا ہے “تجربہ کار اساتذہ” لیکن اس کا عملی نمونہ خال خال ہی نظر آتا ہے ۔اسکی وجہ بھی پرائیویٹ اداروں کے مالکان کی بزنس والی سوچ ہے۔ وہ اساتذہ جو کم تنخواہ پر لیکچر دینے کے لیے راضی ہوں ان کو ہائر کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کے پاس وہ قیمت با آسانی بچ جاتی ہے جو وہ کسی تجربہ کار اساتذہ کو ہائر کر کے ادا کرتے۔کالجز میں کرائے جانے والے BS پروگرامز جو کہ سمسٹر سسٹم پر مشتمل ہوتے ہیں کے سٹوڈنٹس کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس میں پیپر کا سلیبس سے ہٹ کے آنا ، سمسٹر کا دورانیہ کم یا طویل کر دینا، ہر سمسٹر میں اپنی مرضی کی فیس وصول کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پرائیویٹ کالجز جو کے سرکاری یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ ہوتی ہیں کے سٹوڈنٹس کو کالج میں مختلف سلیبس پڑھایا جاتا ہے جب کہ پیپر اس الحاق شدہ سرکاری یونیورسٹی سے بن کے آتا ہے جو کہ بالکل مختلف ہوتا ہے اور سٹوڈنٹس کا رزلٹ خراب آنے کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔بعد میں اگر سٹوڈنٹس اس بات کا احتجاج کرتے ہیں تو صرف یہی جواب ملتا ہے کہ اس میں ہمارا کیا قصورپیپر تو یونیورسٹی والوں نے بنایا ہے ۔محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی طرف سے آنکھیں بند نہ کریں ۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اصول و ضوابط کا اختیار اداروں کے مالکان کو دینے کی بجائے محکمہ تعلیم خود قانون و ضوابط تشکیل دے کے سارے پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر عائد کرے تا کہ سٹوڈنٹس ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کر کے چین سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
Discover more from Muhammad Asad Ul Rehman
Subscribe to get the latest posts sent to your email.