Muhammad Asad Ul Rehman

Cyber Security Professional

Cyber Psychologist

an Adventurer

Muhammad Asad Ul Rehman

Cyber Security Professional

Cyber Psychologist

an Adventurer

Post

Phir sy eid aae ghareebon k lye hasrtoon k pahar ly kr

پھر عید آئی ہے غریبوں کے لیے حسرتوں کا پہاڑ لے کر

اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے لئے بھی وہی چیز پسند کرنے کا حکم فرماتا ہے جو ہمیں اپنے لئے پسند ہو۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عید کے دن نبی کریم ﷺمسجد جارہے تھے کہ راستے میں کچھ ایسے بچوں کوکھیلتے دیکھا جنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔بچوں سے سلام دعاکے بعدآپﷺآگے تشریف لے گئے تووہاں ایک بچے کواُداس بیٹھے دیکھا۔آپﷺ نے اس کے قریب جا کرپوچھا تم کیوں اُداس اور پریشان ہو؟اس نے روتے ہوئے جواب دیا۔اے اللہ کے رسول ﷺمیں یتیم ہوں میراباپ نہیں ہے،جومیرے لئے نئے کپڑے خریدتا،میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلاکر نئے کپڑے پہنادیتی اس لئے میں یہاں اکیلا اداس بیٹھا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ام المومنین سیدہ عائشہ سے فرمایا ’’اس بچے کو نہلا دو’’اتنے میں آپﷺ نے اپنی مبارک چادر کے دو ٹکڑے کردیے۔چادر کا ایک ٹکڑا شلوار کی طرح باندھ دیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیاگیا۔بچہ جب نہلاکر نئے کپڑے پہن کر تیار ہوگیا تو آپﷺ نے بچے سے فرمایا آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گابلکہ میرے کندھوں پرسوار ہوکر جائے گا،آپﷺنے یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کرلیا اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے راستے میں وہ مقام آیا جہاں بچے نئے کپڑے پہنے کھیل رہے تھے جب اُن بچوں نے دیکھا وہ یتیم بچہ جو اکیلا اُداس بیٹھا تھا رحمت دوعالم حضرت محمدﷺکی کندھوں سوار ہے تو کچھ کے دلوں میں خیال گزرا کہ کاش وہ بھی یتیم ہوتے تو آج نبی کریمﷺکے کندھوں کی سواری کرتے۔یہاں تک کہ سرکار دوعالم ﷺنے اُس بچے کو اپنے ساتھ ممبر پر بٹھایا اور فرمایا جو شخص یتیم کی کفالت کرے گااور محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پیرے گا،اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عید سب کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتی ہے لیکن افسوس! ہمارے غریب ہم وطن عید کے روز بھی خوشیوں کو ترستے ہیں۔ بجائے خوشیاں لانے کے عید ان کے لیے حسرتوں کے پہاڑ لاتی ہے۔غریب کا بچہ جب دیکھتا ہے ہو گا کہ امیر کا بچہ چند سو روپے کا سوٹ ہزاروں روپے میں تو خرید رہا ہے پر وہ تن کے کپڑوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔ محنت مزدوری کرنے والا غریب مزدور عید کے ایام میں لذیذ کھانے تو دور کی بات روز مرہ میں دو وقت کی جو سادہ روٹی کھاتے ہیں وہ بھی مہنگائی کی تاب نہ لاتے ہوئے بمشکل میسر ہو سکتا ہے۔ وہ بے چارے عید کا انتظار کرتے ہیں، عید آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ ان کی زندگیوں میں کوئی مسرت کی رمق محسوس نہیں ہوتی۔ وہ عید پر بھی خوشیوں کو ترستے ہیں۔ان کی زندگی میں جوش و خروش بھی کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہم لوگوں میں عید کی مسرتیں مصنوعی لگنے لگی ہیں۔ ہماری خوشیوں میں وہ خلوص اور اپنائیت نظر نہیں آتی جو پہلے کسی زمانے میں دکھائی دیتی تھی۔دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ مذہبی تہواروں کے مواقعوں پر عام استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔ حکومتیں ہی نہیں ہر طبقے کے افراد دیگر طبقات کے لوگوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یورپ و امریکہ میں لوگوں کی اکثریت،ایسی چیزیں جو عام دنوں میں گراں ہونے کے باعث نہیں خریدی جاسکتیں، ان کی خریداری کے لیے کرسمس کا انتظار کرتی ہے۔جبکہ ہمارے یہاں عید اور رمضان المبارک کے موقع پر تو بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ترقی یافتہ مغربی ممالک کو تو چھوڑ دیجیے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں بھی رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کوسہولت دی جاتی ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی عید تو سر پر آن پہنچی ہے لیکن چیزوں کی قیمت میں کوئی کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔عید کی حقیقی خوشی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عید کسی کیلئے خوشی بن کر آتی ہے تو کسی کیلئے حسرتوں کا پہاڑ بنا دی جاتی ہے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ عید کی خوشیاں ملک میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، بدامنی، عدم تحفظ، نا انصافی اور دیگر مسائل کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد مسائل میں گھرے عوام کیلئے رمضان کریم کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ خوشی اور مسرت والاتہوار منانے کے لئے بھی وسائل میسر نہیں۔ چنددہائیوں قبل چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج تھا جواب دم توڑتا جارہا ہے۔ اس کے برعکس دیکھنے کویہ ملتا ہے کہ چاند رات کو جیسے ہی چاند نظر آنے کا اعلان ہوتاہے،خواتین زیادہ تر بیوٹی پارلر کا رخ کرتی ہیں تاکہ ان کے بناؤ سنگھار میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔عید جیسے جیسے قریب آ رہی ہے مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز میں خریداروں کا ہجوم تو نظر آرہا تھا، لیکن اس ہجوم میں لوگوں کی بڑی تعداد ایسی ہے، چیزوں کے دام پوچھنے کے بعد جن کا چہرہ کا رنگ ماندپڑ جاتا ہے اور ان میں سے اکثر کی استطاعت اتنی بھی نہیں ہوتی کہ وہ مول بھاؤ کرسکیں۔ وہ دوسروں کو رنگ برنگے کپڑے خریدتے دیکھتے ہوئے مایوسی کے عالم میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔والدین کہ دلوں میں بھی حسرت ہوتی ہے کاش وہ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے خرید سکتے۔ کاش وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکتے۔ اور ان معصوم بچوں کی آنکھوں میں بھی نمی اور دلوں میں حسرتیں ہوتیں ہیں کاش وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو پاتے۔اگر ہم غریبوں کے علاوہ ایک نظر دوسرے طبقوں پر بھی ڈالیں تو ان میں کافی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اگر ہم چند سال پہلے کا جائزہ لیں توپتا چلے گا کہ لوگ رمضان کا چاند، عید کا چاند دیکھنے کے لیے گھروں کی چھتوں پہ جمع ہوتے اور چاند نظر آتے ہی ان میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی، ایک دوسرے کو عید کارڈ، عید گفٹ وغیرہ دیتے تھے جن میں ایک دوسرے کے لئے پیار اور محبت جھلکتی تھی۔ یہ جذبات آج کے دور میں نہیں پائے جاتے۔ہمیں بھی نبی کریمﷺکی پیروی کرتے ہوئے عید کے موقع پر اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تاکہ ان کی بھی عید ہوجائے اور ہمیں کل روز قیامت آپﷺ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔اس موقع پرہمیں اپنی حیثیت کے مطابق اپنے ارد گرد بسنے والے غریب،یتیم بچوں کو عید کی خوشیوں میں اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔اگر قیمتی چیزیں خرید کر نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں کوئی سستی چیزاور تھوڑا سا وقت تحفے میں دے کر ان معصوموں کو اپنی خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع فراہم کرناہے۔ اگرآپ عید پر اپنے بچے کے لئے ایک ہزار روپے کے کپڑے خریدتے ہیں تو کوشش کریں آٹھ سو روپے کے اپنے بچے اور دوسو روپے کے کپڑے کسی غریب،یتیم بچے کے لئے خرید کر اُسے بھی عید کی خوشیوں میں شامل کرلیں ہوسکتا ہے اس عمل سے ہماری آخرت سنور جائے۔علاوہ ازیں رشتوں میں کسی بھی قسم کی رنجش کو بھلاکر سب کو معاف کرکے نئے سرے سے تعلقات کی شروعات کریں۔ یقیناپرانی رنجشوں کو بھلا نے کیلئے عید جیسا کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا۔ تمام اسلامی بھائیوں کو میری طرف سے عید مبارک


Discover more from Muhammad Asad Ul Rehman

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Write a comment