Selfi ka Junoon or Nuqsanat
سیلفی کا جنون و نقصانات
اس بات سے انکار نہیں کیاجا سکتا کے ٹیکنالوجی سے ہماری زندگی میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں مجھے اس بات کا سہی طور پہ اندازہ تب ہوا جب میں نے دیکھا کے پہلے وقتوں کے لوگ جیبوں میں چھوٹا آئینہ رکھتے تھے لیکن اب اس کی جگہ موبائل کے فرنٹ کیمرے نے لے لی ۔ جب جہاں دل کرے جیب سے نکالو فرنٹ کیمرہ کھول کے حلیہ درست کرلو صرف اتناہی نہیں ،آئینے میں تو صرف خود کی رائے لے سکتے تھے پر اب اسے سوشل میڈیا پر ڈال کے اوپر چھوٹی سی تحریر لکھ دی جاتی ہے ’’کیسا لگ رہا/رہی ہوں؟‘‘ ۔’سیلفی‘ کی اصطلاح ریکارڈ کے مطابق سب سے پہلے بی بی سی آن لائن نے تیرہ ستمبر دو ہزار دو کو اپنی ایک خبر میں استعمال کیا۔ یہ کوئی نیا شوق نہیں بلکہ فوٹو گرافی کے آغاز سے ہی لوگ اس کے سحر میں گرفتار رہے ہیں تاہم اس زمانے میں اسے سیلف پورٹریٹ کا نام دیا جاتا تھا اورایک حالیہ خبر کے مطابق دنیا کی پہلی سیلفی 1839 میں 30 سالہ رابرٹ کارنیلیئس نے بنائی جب اس نے فلاڈلفیا میں اپنے والد کی دکان کے پچھلے حصے میں خود اپنے ہی چہرے کا پورٹریٹ بنایا۔ تاہم اسمارٹ فونز کے متعارف ہونے کے بعد یہ ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ تاہم اسے شہرت ابھی حالیہ برسوں میں ہی ملی اور اب تو یہ مرکزی میڈیا تک میں استعمال ہوتی ہے اور اس کا جادو عام افراد یا شوبز کی دنیا سے جڑے ستاروں سے لے کر سنجیدہ ترین سیاست دانوں تک چل چکا ہے۔ کچھ حضرات جو اپنی شکل سے مطمئن نہیں ہوتے نائس، زبردست وغیرہ جیسے کمنٹ ان کو کافی حوصلہ دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ تو سیلفی کا رواج اتنا عام رہا کے اٹھتے بیٹھتے ،چلتے سوتے ہر جگہ ہر انداز میں سیلفی لے کہ سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کی جاتی تھی۔سیلفی‘‘کی شہرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ لفظ سیلفی دو ہزار تیرہ میں آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں شامل کیا گیا اور اس کی بے انتہا مقبولیت کی وجہ سے اسے ’’ورڈ آف دی ایئر‘‘ قرار دیا گیا۔ابھی لوگ سیلفی کے طوفان سے محفوظ ہو ہی رہے تھے کہ ایسی ایپلیکیشنز آگئیں جن کے استعمال سے ہم مختلف فلٹر لگا کر تصویر کو خوبصورت کر سکتے ہیں۔ میرے لیے یہ تجربہ بہت بھیانک رہا، اکثر فیس بُک کے دوست جب حقیقت میں سامنے آتے تو میں باوجود کوشش کہ انہیں پہچان نہیں سکتا تھا ۔شاید اس کی وجہ بھی یہ فلٹرز کا استعمال تھا۔آج انسانی آبادی بڑھ کر سات بلین سے تجاوز کرچکی ہے تو کیمروں کی ’’آبادی‘‘ (موبائل فون کے طفیل) اس قدر تیزی سے بڑھ کر اربوں تک جا پہنچی ہے کہ انسان تو انسان، جانور تک منہ دیکھتے رہ گئے ہیں۔ جو کیمرے پہلے فوٹوگرافر کے کاندھے پر ہوتے تھے، اب ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں آگئے ہیں اور بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں۔ اس بے دریغ استعمال کا ایک مظہر سیلفی ہے۔پہلے ہم تصاویر کے لیے فوٹوگرافر کے محتاج تھے، آج ہر وہ شخص فوٹوگرافر ہے جس کے پاس موبائل فون ہے، خواہ تین ہزار روپے والا موبائل فون ہی کیوں نہ ہو۔سائنسدانوں کا تو خیال ہے کہ سیلفی کی عادت درحقیقت انسان کے اندر چھپی خودپرستی کی عادت کو ظاہر کرتا ہے۔کئی ملکوں میں حکومتیں اور پبلک سیکیوریٹی ادارے سیلفی کے جنون کو عوامی سلامتی کے لیے سنجیدہ نوعیت کا خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ ایک امریکی ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق سیلفی کے چکر میں 2013 سے اب تک دو سو کے قریب افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ بھارت میں سیلفی لیتے ہوئے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 17 سے زائد ہے۔روس کے حکام کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو سیلفی لینا بند کردینا چاہیے کیونکہ سیلفی لینے سے سر میں جوئیں پڑ سکتی ہیں۔ یہ تنبیہہ روس کے علاقے کورسک کے ایک محکمے نے کی ہے۔ محکمے کا کہنا ہے کہ سیلفی کے لیے لوگ سر جوڑتے ہیں اور اس وجہ سے جوئیں ایک سر سے دوسرے سر میں منتقل ہو سکتی ہیں، حکام کا کہنا ہے کہ پہلے ہی سے کورسک میں ان بچوں کا اسکول میں داخلہ ممنوع ہے جن کے سر میں جوئیں ہوں۔ولاوہ ازیں جارجیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق سیلفی لینے کا جنون نوجوانوں میں بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور یہ مختلف کمپنیوں کی نظر میں خود پر کنٹرول نہ رکھنے کی بیماری ہے جس کو وہ کسی صورت برداشت نہیں کرتیں۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سیلفی لینے کی بہت زیادہ عادت بیشتر نوجوانوں کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پر مجبور کر رہی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ کریئر کے لحاظ سے سیلفی آپ کے مستقبل پر واقعی بہت زیادہ اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی طرح سیلفی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے ہی کمپنیاں اور موجدین کی توجہ بھی اس ٹیکنالوجی کو دلچسپ اور جدید ترین رخ دینے کی جانب مبذول ہوچکی ہے اور ایسی ایسی ڈیوائسز سامنے آرہی ہیں جو کسی کا بھی دل جیت سکتی ہیں، جس میں چند کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
Discover more from Muhammad Asad Ul Rehman
Subscribe to get the latest posts sent to your email.