Muhammad Asad Ul Rehman

Cyber Security Professional

Cyber Psychologist

an Adventurer

Muhammad Asad Ul Rehman

Cyber Security Professional

Cyber Psychologist

an Adventurer

Post

Mainy Pakistan ka Mustaqbil Zaleel Hoty Daikha

میں نے پاکستان کا مستقبل ذلیل ہوتے دیکھا

گزشتہ روز سکول کے سامنے سے گزر ہوا یہ شاید چھٹی کا وقت تھا اور تھکے ہوئے طلبہ و طالبات اپنی گھروں کی جانب جا رہے تھے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جنہیں لینے ان کے والدین آئے ہوئے تھے ،کچھ ایسے تھے جو سکول وین پہ جا رہے اور ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن کی کے والدین کی مالی حالت اتنی نہیں تھی کہ وہ ان بچوں کے لیے کسی سواری کا انتظام کر سکتے لہذا وہ تھکے ہونے کے باوجود بھی پیدل اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔چونکہ سڑک پہ اتنا رش تھا کے میں آگے نہیں جا سکتا تھا لہذا میں ایک طرف رُک کے ننھے مُنے بچوں کو جاتا دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری طرف ایک بچہ آیا اس نے کندھے پہ بستے کی بجائے گھی والا ڈبہ لٹکایا ہوا تھا جس میں شاید کتابیں تھیں ، بدن پہ پُرانی وردی تھی جو کئی جگہوں سے پھٹی ہوئی تھی اس نے ہاتھ میں ایک ٹوکری پکڑی ہوئی تھی جس میں کھجور کے پیکٹ تھے ۔ اس نے ایک پیکٹ اتھا کے میری طرف بڑے معصومانہ انداز میں کہا’’انکل یہ کھجور لیں گے‘‘ ۔ پر میں کوئی جواب دینے کی بجائے بغور اسے دیکھ رہا تھا کہ اس نے دوبارہ کہا ’’انکل یہ کھجور لے لیں پلیز ‘‘۔ اتنے میں ایک پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس شخص اس کے قریب آیا اور گھسیٹتے ہوئے لے گیا۔ وہ شخص اس بچے کا باپ تھااور اسے یہ کہتے ہوئے گھسیٹ رہا تھا ’’میں نے تمھیں کتنی دفعہ کہا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ تمھیں پڑھا سکوں پھر کیوں روز وردی پہن کے آ جاتے ہو، میرے ساتھ چل کے کام کرواؤں سارا کام ادھرا پڑا ہے‘‘ اسی طرح وہ بولتے ہوئے میری نظروں سے دور ہو گئے۔ بچہ تو رو ہی رہا تھا پر بچے کے ساتھ ساتھ اس شخص کی آنکھوں میں بھی میں نے نمی دیکھی ۔ میری دماغ میں جیسے دھماکے سے ہو رہے تھے ۔میرے دماغ میں اس وقت رہنماؤں کے الفاظ گونجے’’ یہ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں،یہی بچے پاکستان کا کل ہے انہی سے ہی ہمارے پاکستان کا کل جڑا ہے‘‘ ہاں یہی ہے پاکستا ن کا کل، یہی ہے پاکستان کا مستقبل ۔ ایسے ہی ذلیل ہو گا کیا پاکستان مستقبل میں ؟پاکستان میں بے تحاشا مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ چائلڈ لیبر کا بھی ہے۔وہ بچے جن سے پاکستان کامستقبل وابستہ ہے بہت بڑے پیمانے پران کم عمر اور نابالغ بچوں سے محنت مزدوری کرائی جاتی ہے۔ یہ واحد مسئلہ ہے جو پاکستان کے تمام صوبوں میں یکساں بڑھ رہا ہے۔ عام طور پر سوچا جاتا ہے کہ چائلڈلیبرنگ صرف دیہی علاقوں میں ہے جس کی وجہ غربت ہے پر درحقیقت اگر شہروں کی بات کی جائے تو زیادہ تر تعداد ہمیں چھوٹی صنعتوں، ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی دکانوں میں اور اسی طرح ان سے جڑے ہوئے اور بہت سے شعبوں میں نظر آتی ہے مثلا اشیاء کی لوڈنگ وغیرہ۔حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے دیہی علاقوں میں سکولوں و کالجر کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں پرائیویٹ سکولوں نے اپنا بزنس بنایا ہوا ہے جس کی فیس وسائل کی کمی کی وجہ سے غریب والدین نہیں ادا کر سکتے۔ دیہاتوں میں وسائل کی کمی اور غربت کی وجہ سے ماں باپ اپنے آٹھ آٹھ، دس دس سال کے بچوں کو قریبی شہروں میں کمانے کیلئے بھیج دیتے ہیں اور کوئی بھی ہنر یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ معصوم بچے ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی موٹی دکانوں میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے بچوں کو ماں باپ شہروں میں کوئی ہنر سیکھنے کیلئے بھیج دیتے ہیں کہ چلو کوئی ہنر سیکھ کے اچھے پیسوں والی نوکری مل جائے گی اور مستقبل میں لڑکا خود اپنی دکان لگا لے گا۔ مگر یہ بچے جب شہروں میں پہنچتے ہیں تو آگے ان کی مجبوری اور سستی لیبرکو دیکھ کر آٹو موبائل، الیکٹریکل اور لوہے کی دکانوں وغیرہ کے مالکان کی رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ ان معصوم بچوں کی محنت کا شدید ترین استحصال کرتے ہیں۔ 1996ء کے بعد سے اب تک چائلڈ لیبر پر کوئی بھی سروے نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے آج پاکستان میں چائلڈ لیبر کے درست اعداد و شمار معلوم نہیں۔ ILO (انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن) کے 2012 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد تقریبا 1کروڑ 25 لاکھ تھی۔ جبکہ SPARC نامی ایک این جی او کے کئے گئے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ 50 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 50لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں۔ یقیناًیہ اعداد و شمار حقیقی صورت حال سے کم ہیں۔ اسکی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان میں بے روزگاری اور مہنگائی بہت بلند سطح پر ہے جس کی وجہ سے اگر 2کروڑ 50 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے تو اسکا سیدھا سا مطلب یہ کہ وہ تمام بچے جرائم اور چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ اتنی کم عمر میں اور اتنی مہنگائی کے عالم میں زیادہ مواقع چائلڈ لیبر کے ہی ہیں۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں سروے کرنا ممکن ہی نہیں جیسے بلوچستان اور پختونخواہ کے بہت سے دشوار گزار، پسماندہ اور خطرناک علاقے اور ان کے ساتھ ساتھ فاٹا کے قبائلی علاقے۔ ان علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے لہٰذا ان علاقوں میں چائلڈ لیبر کے لئے حالات سازگار ہیں اور یقیناان علاقوں میں چائلڈ لیبر بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہو گی۔ اسی طرح ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گھریلو سطح پر ہونے والی چائلڈ لیبر چونکہ عام طور پر نہایت بے قاعدگی سے ہوتی ہے اور اس کے اعداد و شمار اکٹھا کرنا بہت مشکل بھی ہے۔ اسی طرح اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں چائلڈ لیبر کی درست تعداد ان سرویز سے بھی زیادہ ہے۔بھٹوں پر چائلڈ لیبر کے متعلق HRCPکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا 80 لاکھ کے قریب بانڈڈ لیبر کا شکار مزدور ہیں جن میں زیادہ تر کا تعلق بھٹہ مزدوری سے ہے۔ UNICEF کی ایک رپورٹ کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں پر تقریبا 2 لاکھ 50ہزار چائلڈ لیبر موجود ہے۔بچے قوم کا سرمایہ ہیں اور حکومتِ پاکستان کی بیپروائی کی وجہ سے یہ ضائع ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ تقریروں اور سیمینار کی حد تک تو اِن کی فلاح و بہبود کی بات کی جاتی ہے مگر کوئی خاطر خواہ عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمے کے لئے معاشرے کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا تا کہ ہم چائلڈ لیبر جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکیں اور یہ بچے جو کہ پاکستان کا مستقبل ہیں ان کو تعلیم دے کر ہم پاکستان کا مستقبل بچا سکیں۔


Discover more from Muhammad Asad Ul Rehman

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Write a comment