Muhammad Asad Ul Rehman

Cyber Security Professional

Cyber Psychologist

an Adventurer

Muhammad Asad Ul Rehman

Cyber Security Professional

Cyber Psychologist

an Adventurer

Post

Case Study: Communication Device Explosions in Lebanon

A series of devastating explosions rocked Lebanon on Tuesday and Wednesday, leading to the deaths of at least 32 people, including children, and injuring thousands more. The blasts targeted devices, such as pagers and walkie-talkies, many of which were reportedly in the possession of Hezbollah operatives. These incidents have added further tension to Lebanon’s already volatile environment and raised serious concerns about the growing sophistication of cyberattacks and their physical consequences.

Tuesday’s Pager Explosions:

The first wave of explosions occurred around 15:30 local time on Tuesday in Beirut and other parts of Lebanon. Eyewitnesses described smoke emerging from people’s pockets, followed by sudden blasts, which were later identified as coming from pagers used by Hezbollah members. According to reports from the New York Times and confirmed by Lebanese security officials, the devices detonated after receiving what appeared to be messages from Hezbollah’s leadership, triggering the blasts. This initial round of explosions resulted in 12 deaths and nearly 3,000 injuries.

Pager-Attack

Wednesday’s Walkie-Talkie Blasts:

A second round of explosions occurred on Wednesday afternoon, this time involving walkie-talkies purchased by Hezbollah. According to Lebanon’s health ministry, these blasts claimed 20 lives and injured around 450 people. The explosions took place during the funeral procession of Tuesday’s victims, further intensifying panic. The detonations have prompted speculation that Israeli intelligence operatives may have been behind the attacks, although Israel has not commented on the matter.

Technology and Attribution:

Hezbollah has traditionally relied on low-tech devices such as pagers to evade sophisticated tracking systems. However, this reliance backfired as reports from BBC and CNN suggest that the pagers and walkie-talkies were tampered with, possibly remotely. While Israel has been implicated by some analysts and Hezbollah in these attacks, there has been no official confirmation from Israeli authorities.

The devices involved in the blasts are said to have been imported five months ago, with several global manufacturers being named in connection with the explosions. A Taiwanese company, Gold Apollo, and a Hungarian firm, BAC, were linked to the manufacturing of the pagers, but both have denied involvement, according to BBC sources. Furthermore, Icom, a Japanese company, confirmed that the walkie-talkies used were discontinued models, leading to the possibility that counterfeit or tampered versions were in circulation.

Hezbollah device explosions

Implications and Opinions:

These explosions highlight the emerging threat of cyber-physical attacks, where cyber manipulation can result in real-world destruction. As Hezbollah and other groups attempt to circumvent traditional surveillance through outdated technology, it appears that adversaries, likely Israel, have developed methods to infiltrate and compromise even these low-tech communication methods.

The broader implications are troubling. In an era where digital systems increasingly dominate warfare and intelligence operations, this case demonstrates how vulnerable even “secure” technologies can be when targeted by sophisticated cyber operatives. Lebanon is now grappling with the aftermath of these attacks, with heightened paranoia about the safety of any communication device and concerns over further escalation of the Hezbollah-Israel conflict.

International observers are closely watching the situation, with fears that these events could escalate into a broader confrontation. Hezbollah’s accusations against Israel, combined with ongoing tensions in the region, suggest that the situation may deteriorate unless diplomatic efforts succeed in de-escalating the conflict.

 

لبنان میں منگل اور بدھ کے روز ہونے والے تباہ کن دھماکوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، جن میں کم از کم 32 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ یہ دھماکے ایسے آلات، جیسے پیجرز اور واکی ٹاکیز، میں ہوئے، جو کہ حزب اللہ کے کارندوں کے پاس تھے۔ ان واقعات نے لبنان کے پہلے سے ہی کشیدہ ماحول میں مزید تناؤ پیدا کر دیا اور سائبر حملوں کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی اور ان کے جسمانی نتائج پر سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔

منگل کے پیجر دھماکے

دھماکوں کی پہلی لہر مقامی وقت کے مطابق منگل کے دن 15:30 بجے بیروت اور لبنان کے دیگر حصوں میں شروع ہوئی۔ عینی شاہدین نے بیان کیا کہ لوگوں کی جیبوں سے دھواں نکلنا شروع ہوا اور اس کے بعد اچانک دھماکے ہوئے، جنہیں بعد میں حزب اللہ کے اراکین کے استعمال میں موجود پیجرز کے طور پر شناخت کیا گیا۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ اور لبنانی سیکیورٹی اہلکاروں کی تصدیق کے مطابق، یہ پیجرز حزب اللہ کی قیادت کی جانب سے پیغامات وصول کرنے کے بعد پھٹ گئے۔ اس ابتدائی دھماکے کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک اور تقریباً 3,000 افراد زخمی ہوئے۔

بدھ کے واکی ٹاکی دھماکے

دوسرے دھماکے بدھ کی دوپہر کو ہوئے، اس بار واکی ٹاکیز میں جو حزب اللہ نے خریدا تھا۔ لبنانی وزارت صحت کے مطابق، ان دھماکوں میں 20 افراد ہلاک اور تقریباً 450 افراد زخمی ہوئے۔ یہ دھماکے منگل کے متاثرین کے جنازے کے دوران ہوئے، جس سے لوگوں میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا۔ ان دھماکوں کے بعد قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ یہ حملے اسرائیلی خفیہ اہلکاروں کی کارروائی ہو سکتے ہیں، اگرچہ اسرائیل نے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ٹیکنالوجی اور اس کا تعین

حزب اللہ نے عام طور پر جدید ٹریکنگ سسٹمز سے بچنے کے لیے کم تکنیکی آلات جیسے پیجرز کا استعمال کیا ہے۔ تاہم، اس انحصار کا نقصان اس وقت سامنے آیا جب بی بی سی اور سی این این کی رپورٹس سے پتہ چلا کہ ان پیجرز اور واکی ٹاکیز کو شاید دور سے چھیڑ چھاڑ کے ذریعے دھماکہ خیز بنایا گیا تھا۔ جبکہ کچھ تجزیہ کاروں اور حزب اللہ نے ان حملوں کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے، اسرائیلی حکام کی جانب سے کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

دھماکوں میں ملوث آلات تقریباً پانچ ماہ قبل درآمد کیے گئے تھے، اور عالمی سطح پر کئی مینوفیکچررز کو ان دھماکوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایک تائیوانی کمپنی گولڈ اپولو اور ایک ہنگری کی کمپنی بی اے سی کو پیجرز کی تیاری میں شامل کیا گیا تھا، لیکن دونوں نے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ مزید برآں، جاپانی کمپنی آئیکوم نے تصدیق کی کہ واکی ٹاکیز پرانے ماڈلز تھے، جس سے یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ نقلی یا چھیڑ چھاڑ شدہ ورژنز گردش میں ہو سکتے ہیں۔

نتائج اور رائے

یہ دھماکے سائبر-فزیکل حملوں کے ابھرتے ہوئے خطرے کو اجاگر کرتے ہیں، جہاں سائبر حملے حقیقی دنیا میں تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ جیسے جیسے حزب اللہ اور دیگر گروہ روایتی نگرانی سے بچنے کے لیے پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مخالفین، غالباً اسرائیل، نے ان کم تکنیکی مواصلاتی طریقوں کو بھی دراندازی اور نقصان پہنچانے کے طریقے تیار کر لیے ہیں۔

اس کے وسیع تر نتائج پریشان کن ہیں۔ ایک ایسے دور میں جہاں ڈیجیٹل نظام جنگ اور انٹیلیجنس آپریشنز پر غالب آ رہے ہیں، یہ کیس ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح حتیٰ کہ “محفوظ” سمجھی جانے والی ٹیکنالوجی بھی ماہر سائبر آپریٹرز کی جانب سے نشانہ بننے پر غیر محفوظ ہو سکتی ہے۔ لبنان اب ان حملوں کے بعد کے اثرات سے نبرد آزما ہے، جہاں کسی بھی مواصلاتی آلے کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بڑھ گئے ہیں اور حزب اللہ-اسرائیل تنازعے میں مزید بگاڑ کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

بین الاقوامی مبصرین اس صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، اور خوف ہے کہ یہ واقعات مزید تصادم میں بدل سکتے ہیں۔ حزب اللہ کے اسرائیل کے خلاف الزامات اور خطے میں جاری کشیدگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سفارتی کوششوں کے ذریعے کشیدگی کو کم نہ کیا گیا تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔


Discover more from Muhammad Asad Ul Rehman

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Write a comment