Nusrat Fateh Ali Khan
استادوں کے استاد ،شہنشاہ قوال اور موسیقی کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے آج 21 برس بیت گئے ۔۔۔
نصرت فتح علی خان تیرہ اکتوبر 1948 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور 16 سال کی عمر میں صوفی قوالی کا رنگ اپنایا اور قوالی کے ساتھ غزلیں،کلاسیکل اور صوفی گیت بھی گائے۔ وہ ہارمونیم، طبلہ اور دیگر آلات بجانے کے فن سے بھی خوب آشنا تھے۔انہوں نے ہالی ووڈ کے لیےالاپ اور راگ پیش کیے ۔ہندوستان میں سب سے پہلے ’’دی بینڈٹ کوئین‘‘میں ان کے نغمے کو استعمال کیا گیا،یہ فلم پھولن دیوی کی زندگی پر بنائی گئی تھی۔ نصرت نے 40 سے زائد ملکوں میں اپنے کنسرٹ کیے ۔انہوں نے 1988میں پیٹر گبریل کی فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپ ٹیشن آف کرائسٹ‘‘کے لیے بھی اپنی آواز پیش کی اور 1995 میں ڈیڈ مین واکنگ کے لیے دو شاہکار پیش کیے،اس کے بعد پیٹرگبریل کے ساتھ قوالیوں کےالبم ریلیز کیے۔ اے آر رحمان کے ساتھ بھی ان کے کئی البم اورگانے ہیں۔آپ کے والد کا نام فتح خان تھا وہ خود بھی نامور گلوکار، سازندے اور قوال تھے۔نصرت فتح علی خان نے ایک مرتبہ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،’’ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں فن موسیقی سے آگاہی تو ضرور حاصل کروں لیکن اس کو پیشے کے طور پر نہ اپناؤں، وہ مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔‘‘ان کافن مشرق و مغرب کی موسیقی کا وہ امتزاج تھا، جس میں اردواورپنجابی زبانوں کی شیرینی نے دنیا بھر کے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا یا۔نصرت فتح علی خان کی قوالیوں کے پچیس البم ریلیز ہوئے جن کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، ابتداء میں حق علی علی اور دم مست قلندر وہ کلام تھے جنہوں نے انہیں شناخت عطا کیاس کے علاوہ انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نواز اگیا، وہ بیک وقت موسیقار بھی تھے اور گلوکار بھی تھے 1995 میں انہیں یونیسکو میوزک ایوارڈ دیا گیا جبکہ 1997 میں انہیں گرامی ایوارڈز کیلئے نامزد کیا گیا۔ٹائم میگزین نے 2006 میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔علاوہ ازین یہ بھی کسی اعزاز سے کم نہیں کہ ان کی کئی قوالیوں اور گیتوں کو پاکستان و بھارت کے گلوکاروں نے اپنے اپنے انداز میں گایا ہے۔نصرت فتح علی خان کی پہلی باقاعدہ سوانح حیات فرانسیسی زبان میں لکھی گئی ،بعد میں اس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔ ان کی عمر اڑتالیس سال تھی اور اپنی وفات کے وقت وہ اپنے کریئر کے عروج پر تھے، کئی بین الاقوامی فنکار اسے اپنی خوش قسمتی قرار دیتے ہیں کہ انہوں نے نصرت فتح علی خان کے ساتھ کام کیا۔گلوگارہ لتا منگیشکر نے ان کی وفات کے فوراً بعد ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا تھا،’’ میں یہ سمجھتی ہوں کہ نصرت صاحب کی موت سے دنیائے موسیقی کو بہت نقصان ہوا ہے۔ وہ اپنے ملک میں ہی نہیں ہمارے ہاں بھی بہت زیادہ مقبول تھے۔ نصرت صاحب نے ایک فلم کی موسیقی ترتیب بھی دی تھی جس کے گیت مجھے گانا تھے، لیکن میں کسی مصروفیت کی وجہ سے وہ گیت نہ گا سکی، جس کا مجھے عمر بھر افسوس رہے گا۔شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان جگر اور گردے کی تکلیف کے باعث 16 اگست 1997 کو دنیائے فانی سے کوچ کرگئے لیکن ان کے گائے گئے گیت امر ہوگئے۔نصرت فتح علی خان کے بھتیجے و شاگر د استاد راحت فتح علی خان آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کی برسی پر دنیا بھر میں ان کے مداح تقریبات کا اہتمام کریں گے۔
Discover more from Muhammad Asad Ul Rehman
Subscribe to get the latest posts sent to your email.